فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات رہنا چاہیے، اعظم نذیر تارڑ
فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات رہنا چاہیے، اعظم نذیر تارڑ
مقدّمہ
مارشل اواسِر، ملکی دفاعی نظام اور عسکری قیادت کے حوالے سے اہم ترین عہدوں میں سے ایک ہے: فیلڈ مارشل کا عہدہ۔ حال ہی میں سابق افواج پاکستان کے سربراہ عظّم نذیر تارڑ نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات (لائف ٹائم) ہونا چاہیے۔ اس آرٹیکل میں ہم اس تجویز کے پس پشت منطق، ممکنہ فوائد، چیلنجز اور عمل کا جائزہ لیں گے۔
عظّم نذیر تارڑ کی تجویز کا پس منظر
عظّم نذیر تارڑ نے اس خیال کی حمایت کی ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت کو مزید مستحکم اور باوقار بنانے کے لیے فیلڈ مارشل کے عہدے کو تاحیات بنایا جانا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ اس اقدام سے عسکری قیادت کی تسلسل، تجربے کا بہترین استفادہ اور سربراہی تبدیلیوں کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو کم کیا جا سکتا ہے۔
فیلڈ مارشل کا عہدہ — اہمیت اور مقام
فیلڈ مارشل سب سے اعلیٰ فوجی عہدہ ہے، جو عموماً جنگی خدمات، سرکردگی اور عسکری قیادت کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔
یہ عہدہ تقرری، تقاعد یا سبکدوشی کے بعد بھی جاری رہ سکتا ہے، جو اُس کی بقاء کی تجویز سے مطابقت رکھتا ہے۔
عہدے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، اس کے تاحیات رکھنے کے فیصلے سے عسکری قیادت کی عزتِ نفس اور حوصلہ افزائی میں اضافہ ممکن ہے۔
تجویز کے ممکنہ فوائد
1. تجربے کا بھرپور استعمال: ایک تاحیات فیلڈ مارشل عسکری حکمتِ عملی، جنگی تجربہ اور قومی دفاع کے مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
2. قیادت میں تسلسل: قائدانہ تبدیلی سے پیدا ہونے والے خلاؤں کو کم کیا جا سکتا ہے، جس سے پالیسی اور حکمتِ عملی میں استحکام آئے گا۔
3. عزتِ نفس اور حوصلہ افزائی: فوجی افسران کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ اعلیٰ سنجیدگی کے ساتھ خدمات انجام دیں، کیونکہ مقامِ فیلڈ مارشل تاحیات رہنے کا امکان ہوگا۔
4. عالیٰ حکمتِ عملی کی دستیابی: ملک کو ایسے رہنما دستیاب ہوں گے جنہوں نے جدید اور ماضی کی عسکری حکمتِ عملی میں حصہ لیا ہو، اور وہ مستقل مشیر کی صورت میں کام کر سکیں گے۔
تجویز کے ممکنہ چیلنجز اور نقائص
وفاقی آئینی اور قانوناً مسائل: عسکری عہدے اور ان کی مدت کی حدود آئین یا فوجی قوانین کے تحت طے ہوتی ہیں، جن میں تبدیلی وقت اور سیاسی محاذ پر بحث طلب ہو سکتی ہے۔
نئی قیادت کے مواقع کم ہونا: اگر فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات ہو جائے، تو دیگر افسران کے لیے اعلیٰ عہدے تک پہنچنے کے مواقع محدود ہو سکتے ہیں، جو عسکری قیادت کے اندر حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتے ہیں۔
عہدے کی روحانی و عملی معنویت میں فرق: تاحیات عہدے سے عہدے کی نئی ذمہ داریوں اور چیلنجز سے دوری پیدا ہو سکتی ہے، جس سے عملی فعالیت کم ہو سکتی ہے۔
سیاسی اثرات کی ممکنہ تشویش: فوجی اور سول قیادت کے مابین تعلقات میں عسکری عہدے کی تبدیلیاں حساس نوعیت کی ہو سکتی ہیں، خاص طور پر اگر یہ عہدے طویل مدت کے ہوں۔
دیگر ممالک کا تقابل
دنیا کے متعدد ممالک میں فوجی اعلیٰ عہدے مخصوص مدت کے لیے ہوتے ہیں، اور عہدے کی لائف ٹائم حیثیت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ اس تجویز کے اطلاق سے پاکستان عسکری عہدوں کے لحاظ سے منفرد مقام اختیار کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مناسب قانون سازی اور عسکری سول رابطے ضروری ہوں گے
اطلاق کا منظرنامہ — کس طرح ممکن بنایا جائے؟
حکومت اور فوجی قیادت کو مل کر آئینی و قانونی ترمیم کی ضرورت پڑے گی تاکہ اس تجویز کو نافذ کیا جا سکے۔
عہدے کی تعریف، ذمہ داریاں، تقرری و سبکدوشی کی وضاحت ہونا چاہیے تا کہ تاحیات عہدے کی طاقت اور حدود واضح ہوں۔
احتساب اور شفافیت کے نظام کو مضبوط بنانا ہو گا تاکہ فیلڈ مارشل کا عہدہ صرف اعزاز کی حد تک نہ رہ جائے بلکہ فعال رہنما کی حیثیت سے کام کرے۔
نئی قیادت کے لیے متبادل راستے اور مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ فوجی کیریئر میں آگے بڑھنے کے امکانات باقی رہیں۔
نتیجہ
عظّم نذیر تارڑ کی تجویز کہ “فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات ہونا چاہیے” بلاشبہ ایک اہم اور بحث طلب آئیڈیا ہے۔ اگر اسے مؤثر انداز سے نافذ کیا جائے، تو ملکی دفاعی قیادت میں استحکام، تجربے کی مکمل دستیابی اور قائدانہ تسلسل ممکن ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کے اطلاق کے لیے مناسب قانونی ڈھانچے، عسکری و سول تعلقات کی توازن اور نئی قیادت کی ترقی کے مواقع کا احیاء ضروری ہے۔
آپ چاہیں تو اس آرٹیکل کو مزید گہرائی میں لے جا سکتے ہیں، جہاں ہم مختلف فوجی عہدوں کی مدت، عالمی مثالیں، اور پاکستان میں اس تجویز کے تاریخی پس منظر کا جائزہ بھی لیں گے۔ کیا آپ یہ کرنا چاہیں گے؟



Comments
Post a Comment