سوڈان میں مسلمان فوجی جرنیل کا اعلانِ جہاد — یا فتح یا شہادت

 سوڈان میں مسلمان فوجی جرنیل کا اعلانِ جہاد — یا فتح یا شہادت





اللہ کے فضل و کرم سے افریقہ مسلم ملک سوڈان میں حالات نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ مقامی ذرائع اور عینی شاہدین کے مطابق سوڈان کی فوج میں شامل ایک معروف مسلمان جرنیل نے موجودہ بحران کے دوران “جہاد” کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یا تو فتح حاصل ہوگی یا شہادت۔ ان کے اس اعلان نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمِ اسلام میں بھی گہری دلچسپی اور بحث کو جنم دیا ہے۔

سوڈان کا پس منظر اور جاری بحران

سوڈان طویل عرصے سے سیاسی و عسکری عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ 2019ء میں سابق صدر عمر البشیر کی معزولی کے بعد ملک میں عبوری حکومت تشکیل دی گئی، مگر اقتدار کی کشمکش نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ فوجی قیادت اور نیم عسکری فورسز کے درمیان اختلافات رفتہ رفتہ مسلح تصادم کی شکل اختیار کر گئے، جس کے نتیجے میں دارالحکومت خرطوم سمیت متعدد علاقوں میں لڑائی جاری ہے۔

 کئی مہینوں سے جاری اس خانہ جنگی میں عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بجلی، پانی اور غذائی قلت نے زندگی مفلوج کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ ہزاروں افراد سرحد پار کر کے محفوظ مقامات کی تلاش میں ہمسایہ ممالک جا چکے ہیں

 پر فوج کو سخت مزاحمت کا سامنا تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا:


“ہم اس ملک کے دفاع کے لیے اللہ کے نام پر لڑ رہے ہیں۔ یہ صرف ایک جنگ نہیں بلکہ ایمان کا امتحان ہے۔ یا فتح یا شہادت — یہی ہمارا نعرہ  عوام اس تمام کشمکش کا سب سے بڑا نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ہزاروں خاندان اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں، اسپتالوں میں طبی سہولتوں کی کمی ہے، اور اسکول بند پڑے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کی جائے۔


عوام اس تمام کشمکش کا سب سے بڑا نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ہزاروں خاندان اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں، اسپتالوں میں طبی سہولتوں کی کمی ہے، اور اسکول بند پڑے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کی جائے۔



ڈسکلیمر:

یہ خبر دستیاب رپورٹس اور معتبر ذرائع کی بنیاد پر پیش کی گئی ہے۔ قارئین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ تازہ ترین اور درست معلومات کے لیے سرکاری نیوز ذرائع اور معتبر خبر رساں اداروں سے تصدیق کریں

Comments